منٹو کے افسانے भाग 3
منٹو کے افسانے 5
تیسرا منظر
(نگار دلاسے ملحقہ باغیچہ۔ ۔ ۔ وسط میں پست قد ترشی ہوئی جھاڑیوں کے درمیان فوارہ ہے جس میں سے پانی کی پھوار دھڑک دھڑک کر باہر نکل رہی ہے، دھوپ کھلی ہے۔ آسمان نکھرا ہوا ہے۔ فضا میں عجیب سا کنوارا پن ہے۔ ۔ ۔ بے حجاب، ہر ذرہ نظارے کی دعوت لئے گویا قبولیت کا منتظر ہے۔ ۔ ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے۔ ہوا چلتے چلتے ٹھہر سی گئی ہے کہ باغ کی بیلیں پھر سے اپنی زلفیں سنوار لیں، پھول اپنے گالوں کی سرخی درست کر لیں، اور بھنوروں کو جن کلیوں کا منہ چومنا ہے بے خوف و خطر چوم لیں۔ ۔ ۔ اس فضا میں گھاس کے ہموار قالین پر کرسیاں بچھی ہیں۔ ایک میں سعیدہ گلابی لباس میں ملبوس خود اپنا ہی عکس بنی بیٹھی ہے۔ دھوپ کی حدت سے اس کے غازے کے ہلکے سے غبار سے اس کی اپنی گلابیاں، سرخیاں بن بن کر باہر نکل رہی ہیں۔ دوسری کرسی میں مجید ہے جو ہولے ہولے سگریٹ کے کش لگا کر دھوئیں کے نیلے نیلے چھلے منہ سے نکال رہا ہے۔ اس کا چہرہ مطمئن ہے۔ سامنے امجد ہے۔ ۔ ۔ اپاہجوں کی کرسی میں۔ ۔ ۔ اس کے چہرے پر اپاہجوں کی کرسی والی کیفیت ہے جو کسی اور کی مدد کے بغیر نہیں چل سکتی۔ ۔ ۔ اس کا رنگ بہت زرد ہے مگر اس کی آنکھوں میں چمک ہے جو سعیدہ کے حسن و جمال کی بازگشت ہے۔ ) امجد : (اپنے دائیں بائیں دیکھ کر)آج موسم کتنا دلفریب ہے۔ سعیدہ : (فوراً متوجہ ہو کر) جی ہاں۔ امجد :مجید جاؤ، سعیدہ کو گھما لاؤ۔ ۔ ۔ ان پہاڑیوں کی سیر کرا لاؤ۔ ۔ ۔ (پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہتا ہے) افسوس ہے، مجھ سے مڑا نہیں جاتا۔ ۔ ۔ مجید اٹھو۔ ۔ ۔ میری کرسی گھما کر ادھر کر دو۔ ۔ ۔ یہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہونا چاہئے۔ (مجید اٹھتا ہے۔ لیکن سعیدہ اس سے پہلے اٹھ کر امجد کی کرسی کا رخ پھیر دیتی ہے۔ اب تینوں کا منہ پہاڑ کی طرف ہے جو دھوپ میں۔ ۔ ۔ حد نگاہ تک اپنے منہ دھو رہی ہیں۔ ) امجد : (پہاڑیوں کے منظر کو اپنی نگاہوں سے پیتے ہوئے) سعیدہ، یہی ہیں وہ پہاڑیاں جن سے مجھے پیار ہے۔ ۔ ۔ اتنا پیار کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔ (مجید سے) جاؤ، مجید، سعیدہ کو ساتھ لے جاؤ اور ان کی سیر کراؤ (سعیدہ سے)سعیدہ، جب تم ان پر چڑھتے چڑھتے ہانپنے لگو گی اور تمہاری سانس رکنے لگے گی تو تمہیں ایسا محسوس ہو گا کہ اس سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی لذت نہیں۔ ۔ ۔ میں مجید کو زبردستی ساتھ لے جاتا تھا۔ مگر یہ ایک چڑھائی کے بعد ہی ہمت ہار دیتا تھا۔ ۔ ۔ مجھ سے کہتا تھا، بھائی جان مجھے آپ کا یہ شغل پسند نہیں۔ ۔ ۔ یہ کیا کہ آدمی بیکار میں ہانپ ہانپ کر بے ہوش ہو جائے (ہنستا ہے) پہاڑیوں اور ان کو سر کرنے کا حسن اس کی سمجھ میں کبھی نہیں آئے گا۔ کیوں سعیدہ؟ سعیدہ : (مسکرا کر) جی ہاں۔ امجد : (مجید سے) جاؤ یار۔ ۔ ۔ سعیدہ کولے جاؤ۔ ۔ ۔ کبھی کام بھی کیا کرو۔ مجید : (سعیدہ سے) چلئے بھابھی جان۔ ۔ ۔ مگر شرط لگاتا ہوں، آج تو یہ چلی جائیں گی۔ لیکن پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کریں گی۔ سعیدہ :نہیں، نہیں۔ ۔ ۔ یہ آپ کیونکر کہتے ہیں ؟ امجد :اس لئے کہ یہ اور دل و دماغ کا آدمی ہے۔ سعیدہ :دل و دماغ؟۔ ۔ ۔ یہ کیا بلا ہے دل و دماغ؟ مجید :آپ کو ایک ہی پہاڑی چڑھنے سے معلوم ہو جائے گا۔ امجد : (ہنستا ہے) تم بکتے ہو مجید۔ ۔ ۔ سعیدہ کی زندگی کے سامنے تو ایک پہاڑ ہے۔ ۔ ۔ اگر یہ ایک معمولی سی پہاڑی کی چڑھائی ہی سے اکتا گئی تو۔ ۔ ۔ سعیدہ :چلئے مجید میاں۔ مجید :چلئے۔ (دونوں چلے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ امجد مسکراتا ہے۔ ۔ ۔ اصغری داخل ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اس کے ہاتھ میں پلیٹ ہے جس میں چھلے اور کٹے ہوئے سیب ہیں۔ وہ معنی خیز نظروں سے مجید اور سعیدہ کو دیکھتی امجد کی جانب آتی ہے اور اس سے مخاطب ہوتی ہے۔ ) اصغری :تھوڑے سیب کھا لیجئے۔ امجد : (جو سعیدہ اور مجید کو ڈھلوانوں میں اترتے دیکھ رہا ہے) کھالوں گا۔ اصغری : (انہی کی طرف دیکھ کر) آج دولہن بیگم کتنی خوبصورت دکھائی دے رہی ہیں۔ امجد : (ایک دم پلٹ کر اصغری کو دیکھتے ہوئے) دکھائی دے رہی ہیں ؟ اصغری : (خفیف سی بوکھلاہٹ کے ساتھ) جی۔ ۔ ۔ جی ہاں ! امجد : (پھر سعیدہ اور مجید کو دیکھتے ہوئے) خوبصورت ہے۔ خوبصورت دکھائی نہیں دیتی۔ ۔ ۔ ہونے اور دکھائی دینے میں زمین و آسمان کا فرق ہے اصغری۔ اصغری :جی ہاں۔ ۔ ۔ یہ توہے۔ امجد :لاؤ سیب۔ اصغری : (پلیٹ بڑھاتے ہوئے) حاضر ہیں۔ ۔ ۔ پر چھلے ہوئے ہیں۔ امجد :تمہارا مطلب؟ اصغری :چھلی ہوئی چیز سے کوئی بھی دھوکا کھا سکتا ہے (ہنس کر)۔ ۔ ۔ اس کے سرخ سرخ گال تو چھری سے اتر چکے ہیں۔ امجد : (ہنستا ہے) اصغری!۔ ۔ ۔ تم اب بہت شیطان ہو گئی ہو۔ اصغری : (سنجیدگی سے)شیطان؟۔ ۔ ۔ امجد میاں۔ ۔ ۔ آپ نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ شیطان خدا کا سب سے بڑا فرشتہ تھا، جس نے آدم۔ ۔ ۔ یعنی مٹی کے پتلے کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ امجد :ہاں ہاں۔ ۔ ۔ اصغری : اور فرشتوں کے اس ہیڈ ماسٹر کو اس کی سزا دی گئی تھی۔ ۔ ۔ امجد :درست ہے۔ اصغری :تو یہ بھی درست ہے۔ امجد :کیا؟ اصغری :کچھ بھی نہیں۔ ۔ ۔ درست آخر ہوتا کیا ہے ؟۔ ۔ ۔ وہی جسے آپ درست سمجھ لیں، یا درست سمجھنے کی کوشش کریں یاوہ غلطی جو آپ ایک دفعہ اس لئے کر لیں کہ آئندہ درست ہوتی رہے گی۔ یاوہ درستی جسے آپ غلطی میں تبدیل کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ آپ پھر درست کر سکتے ہیں۔ ۔ ۔ لیکن یہ سب بکو اس ہے۔ ۔ ۔ میں ایک موٹی عقل کی عورت ہوں امجد میاں۔ امجد :تم آج کیسی باتیں کر رہی ہو؟ اصغری :میں ایک موٹی عقل کی عورت ہوں۔ ۔ ۔ لیکن ایک عورت ہوں امجد میاں۔ امجد :میں پھر نہیں سمجھا۔ اصغری : (سیب کی ایک قاش اٹھاتی ہے اور امجد کے منہ کے پاس لے جاتی ہے)آپ سیب کھائیے۔ امجد : (سیب کی قاش دانتوں میں لیتے ہوئے) تم پہلے کبھی ایسی باتیں نہیں کیا کرتی تھیں۔ اصغری :آج موسم ہی کچھ ایسا دلفریب ہے۔ امجد :کیا نہیں ہے ؟ اصغری : (سیب کی دوسری قاش اٹھا کر)کیوں نہیں۔ ۔ ۔ یہ لیجئے ایک اور قاش۔ ۔ ۔ (دوسری قاش امجد کے کھلے ہوئے منہ میں ڈالتی ہے۔ ) امجد : (سیب کھاتے ہوئے کچھ توقف کے بعد) اصغری! اصغری : (جو پہاڑیوں کا منظر دیکھنے میں محو تھی، چونک کر) جی؟ امجد :تمہاری شادی کر دیں ؟ اصغری :شادی؟ امجد :ہاں۔ ۔ ۔ اب تمہاری شادی ہو جانی چاہئے۔ اصغری :کیوں امجد میاں ؟ امجد :شادی بڑی اچھی چیز ہے۔ ۔ ۔ دنیا میں ہر شے کی شادی ہو جانی چاہئے۔ ۔ ۔ زندگی میں شادی سے بڑھ کر اور کوئی خوشی نہیں۔ ۔ ۔ میں امی جان سے کہوں گا کہ اصغری کی جلدی شادی کر دیجئے۔ اصغری :نہ امجد میاں ؟ امجد :کیوں ؟ اصغری :مجھے ڈر لگتا ہے۔ امجد :کس سے ؟ اصغری : (سبزے پر بیٹھ جاتی ہے۔ لہجہ فکرمند ہوتا ہے)شادی سے۔ امجد : (ہنستا ہے) پگلی! اصغری :سچ کہتی ہوں امجد میاں۔ ۔ ۔ مجھے واقعی ڈر لگتا ہے۔ ۔ ۔ اول تو ایک نوکرانی کی شادی ہی کیا ہے۔ ہوئی ہوئی، نہ ہوئی نہ ہوئی۔ ۔ ۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ ۔ ۔ لیکن ہو گئی تو کہیں ایسا نہ ہو گاڑی پٹری سے اتر جائے اور ۔ ۔ ۔ امجد : (دکھ کے ساتھ) اصغری! اصغری :کہے جاتی ہے)گاڑی پٹری سے اتر جائے اور اصغری قیمہ قیمہ ہونے سے بچ جائے۔ ۔ ۔ ایک ٹانگ سے لنگڑی، ایک بازو سے لولی اور ایک آنکھ سے اندھی ہو جائے۔ ۔ ۔ آدھی اصغری غائب ہو جائے۔ ۔ ۔ آدھی بچ جائے۔ ۔ ۔ نا امجد میاں۔ ۔ ۔ میری شادی کا نام نہ لیجئے۔ ۔ ۔ شادی تو ایک سالم چیز ہے۔ ۔ ۔ آدھی یا چوتھائی چیز کو شادی نہیں کہتے۔ امجد : (سوچتے ہوئے) اصغری! اصغری : (گھٹی گھٹی آواز میں) جی! امجد :تم ٹھیک کہتی ہو(آواز میں انتہا درجے کا درد پیدا ہو جاتا ہے) لیکن دیکھو مجھے رنجیدہ نہ کرو۔ ۔ ۔ میں خوش رہنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ اپنی ان دو شکستہ ٹانگوں پربھی خوش رہنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ مجھے نہ چھیڑو۔ ۔ ۔ میرے دل میں درد ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اصغری : (امجد کے پاؤں پکڑ لیتی ہے) مجھے معاف کر دیجئے امجد میاں (آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں) جانے میں کیا بک گئی۔ ۔ ۔ آپ خوش رہیں۔ ۔ ۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔ امجد : (بہادری کے ساتھ) خدا کا نام نہ لو۔ ۔ ۔ اگر اس کو مجھے خوش رکھنا ہوتا تو مجھے اس حادثے کا شکار ہی کیوں کرتا۔ ۔ ۔ کیا تھا تو مار کر اپنے شکاری تھیلے میں کیوں نہ ڈال لیتا۔ ۔ ۔ اس کا نام نہ لو۔ ۔ ۔ میری اس کی دوستی ختم ہو چکی ہے۔ ۔ ۔ مجھے اگر خوش رہنا ہے تو اپنے رہے سہے وجود ہی کے سہارے خوش رہنا ہے۔ ۔ ۔ انہی ٹوٹی ہوئی ٹہنیوں پر چند تنکے چن کر مجھے اپنی خوشی کے آشیانے بنانا ہیں۔ اصغری :صرف اپنی خوشی کے ؟ امجد : (بہت زیادہ دکھ کے ساتھ) اصغری خدا کے لئے۔ ۔ ۔ تم اتنی کیوں ظالم ہو گئی ہو۔ ۔ ۔ تمہارے منہ میں اگر زبان پیدا ہوئی ہے تو کیا اسی لئے کہ تم میرے دکھ میں اضافہ کرو۔ ۔ ۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ میری مدد کرو۔ ۔ ۔ ایک اپاہج کی مدد کرو کہ وہ اپنی ٹوٹی ہوئی زندگی جوڑ جاڑ کے چند دن۔ ۔ ۔ صرف چند دن گزارے۔ اصغری :آپ درخواست نہ کیجئے امجد میاں۔ ۔ ۔ میرا کلیجہ پھٹتا ہے۔ ۔ ۔ آپ مالک ہیں، حکم دے سکتے ہیں۔ ۔ ۔ میری زندگی حاضر ہے۔ (اس کے موٹے موٹے آنسو امجد کے سلیپروں پر گرتے ہیں۔ ۔ ۔ اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور ایک طرف چلی جاتی ہے۔ ) امجد : (گردن جھکا کر اپنے سلیپروں کی طرف دیکھتا ہے جن پرسے اصغری کے آنسو لڑھک جاتے ہیں۔ ۔ ۔ گردن اٹھا کر اصغری کو دیکھتا ہے جو کہ جا رہی ہے) (کوٹھی کی جانب سے بیگم نمودار ہوتی ہے۔ شال اوڑھے ہاتھ میں زیورات کے ڈبے لئے وہ امجد کے پاس آتی ہے۔ ) بیگم صاحب :امجد بیٹا۔ امجد : (جلدی سے اپنے پاؤں کمبل میں چھپا کر) جی! بیگم صاحب :سعیدہ کے لئے جو زیورات تم نے پسند کئے ہیں تیار ہو کر آ گئے ہیں۔ لو۔ ۔ ۔ (ڈبے امجد کی گود میں رکھ دیتی ہے۔ ) امجد : (بچوں کے سے اشتیاق سے ہر ڈبہ کھول کر سارے زیورات دیکھتا ہے اور ابلتی ہوئی خوشی کا اظہار کرتا ہے) بہت اچھے ہیں۔ ۔ ۔ بہت عمدہ ہیں۔ ۔ ۔ بہت حسین ہیں۔ ۔ ۔ لیکن اتنے نہیں جتنی سعیدہ ہے۔ ۔ ۔ اصغری۔ ۔ ۔ اصغری!۔ ۔ ۔ ادھر آؤ۔ (اصغری جو ایک سرو کے ساتھ لگ کر کھڑی تھی۔ امجد کے پاس آتی ہے۔ امجد اسے تمام زیورات دکھاتا ہے۔ ) امجد :کہو کیسے ہیں ؟ اصغری :آپ خود کہہ چکے ہیں۔ ۔ ۔ حسین ہیں لیکن اتنے نہیں جتنی دولہن بیگم ہیں۔ امجد : (ماں سے) امی جان۔ کپڑے کب آئیں گے۔ اصغری :کل تک آ جائیں گے۔ امجد : اور وہ بائیسکوپ مشین۔ ۔ ۔ کیوں نہیں آئی ابھی تک۔ بیگم صاحب :بیٹا۔ ۔ ۔ مجید آرڈر دے آیا تھا۔ ایک دو روز میں آ جائے گی۔ امجد :اچھا(رک کر) امی جان! بیگم صاحب :جی بیٹا۔ امجد :کچھ اور بھی منگوانا چاہئے سعیدہ کے لئے۔ ۔ ۔ میں اسے ایک لحظے کے لئے بھی اداس نہیں دیکھنا چاہتا۔ ۔ ۔ ہر روز اس کے لئے کوئی نہ کوئی نئی چیز ضروری ہونی چاہئے۔ بیگم صاحب :سب کچھ تمہارے اختیار میں ہے۔ جو چا ہو کرو۔ امجد :اختیار؟(رک کر) ہاں۔ ۔ ۔ تو۔ ۔ ۔ امی جان۔ بیگم صاحب :جی! امجد :کمال کو بھیجئے۔ ۔ ۔ اسپورٹس کی دکان جائے۔ ۔ ۔ جتنے کھیل اسے مل سکیں لے آئے۔ ۔ ۔ سعیدہ اور مجید کھیلا کریں گے اور میں دیکھا کروں گا۔ ۔ ۔ اور دیکھئے۔ ۔ ۔ اس سے کہئے کچھ ایسے کھیل بھی لے آئے جو میں۔ ۔ ۔ میں بھی سعیدہ کے ساتھ کھیل سکوں۔ بیگم صاحب : (بے حد متاثر ہو کر امجد کا سر اپنے ہاتھوں میں لے کر) میرے بچے ! (امجد بلک بلک کر رونا شروع کر دیتا ہے۔ ۔ ۔ اصغری ضبط نہیں کر سکتی اور چیختی ہوئی ایک طرف دوڑ جاتی ہے۔ ۔ ۔ بیگم کی آنکھوں سے خاموش آنسو رواں ہیں۔ ) ۔ ۔ ۔ پردہ۔ ۔ ۔